Iztirab

Iztirab

ہم چٹانوں کی طرح ساحل پہ ڈھالے جائیں گے

ہم چٹانوں کی طرح ساحل پہ ڈھالے جائیں گے
پھر ہمیں سیلاب کے دھارے بہا لے جائیں گے
ایسی رت آئی اندھیرے بن گئے منبر کے بت
گنبد و محراب کیا جگنو بچا لے جائیں گے
پہلے سب تعمیر کروائیں گے کاغذ کے مکاں
پھر ہوا کے رخ پہ انگارے اچھالے جائیں گے
ہم وفاداروں میں ہیں اس کے مگر مشکوک ہیں
اک نہ اک دن اس کی محفل سے نکالے جائیں گے
جنگ میں لے جائیں گے سرحد پہ سب تیر و تفنگ
ہم تو اپنے ساتھ مٹی کی دعا لے جائیں گے
شہر کو تہذیب کے جھونکوں نے ننگا کر دیا
گاؤں کے سر کا دوپٹہ بھی اڑا لے جائیں گے
داستان عشق کو بیکلؔ نہ دے گیتوں کا روپ
دوست ہیں بے باک سب لہجے چرا لے جائیں گے
بیکل اتساہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *