Iztirab

Iztirab

ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا

ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا 
چشمک ہے برق کی کے تبسم شرار کا 
میں جُو شہید ہوں لب خندان یار کا 
کیا کیا چراغ ہنستا ہے مرے مزار کا 
ہو راز دِل نہ یار سے پوشیدہ یار کا 
پردہ نہ درمیاں ہو جُو دِل کہ غبار کا 
اِس روئے تابناک پہ ہر قطرۂ عرق 
گویا کے اِک ستارہ ہے صبح بہار کا 
ہے عین وصل میں بھی میری چشم سوئے در 
لپکا جُو پڑ گیا ہے مُجھے انتظار کا 
پہنچے گا ترے پاس کبوتر سے پیشتر 
مکتوب شوق اڑا کہ تیرے بے قرار کا 
ہو پاک دامنوں کو خلش گر سے کیا خطر 
کھٹکا نہیں نگاہ کو مژگاں کہ خار کا 
بجھنے کی دِل کی آگ نہیں زیر خاک بھی 
ہوگا درخت گور پہ مری چنار کا 
دیکھ اپنے در گوش کو عارض سے متصل 
دیکھا نہ ہو ستارہ جُو صبح بہار کا 
پُوچھے ہے کیا حلاوت تلخابۂ سرشک 
شربت ہے باغ خلد بریں کہ انار کا 
ہے دِل کی داؤ گھات میں مژگاں سے چشم یار 
ہے شوق اِس کی ٹٹی کی اوجھل شکار کا 
قاصد لکھوں لفافۂ خط کو غبار سے 
تا جانے وہ یہ خط ہے کسی خاکسار کا 
اے ذوقؔ ہوش گر ہے تُو دنیا سے دور بھاگ 
.اِس مے کدے میں کام نہیں ہوشیار کا 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *