Iztirab

Iztirab

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جُو پی لی ہے

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جُو پی لی ہے 
ڈاکا تُو نہیں مارا چوری تُو نہیں کی ہے 
نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں 
اِس رنگ کو کیا جانے پُوچھو تُو کبھی پی ہے 
اِس مے سے نہیں مطلب دِل جس سے ہے بیگانہ 
مقصود ہے اِس مے سے دِل ہی میں جُو کھنچتی ہے 
اے شُوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا 
مہمان نظر اِس دم ایک برق تجلِی ہے 
واں دِل میں کے صدمے دو یاں جی میں کے سب سہہ لو 
اُن کا بھی عجب دِل ہے مرا بھی عجب جی ہے 
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے 
ہر سانس یہ کہتی ہے ، ہم ہیں تُو خُدا بھی ہے 
سورج میں لگے دھبا فطرت کہ کرشمے ہیں 
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کِی مرضی ہے 
تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا 
برکت جُو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے 
سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم 
ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے 

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *