Iztirab

Iztirab

ہوا جام صحت تجویز کرتی ہے

مجھے معلوم تھا 
یہ دن بھی دکھ کی کوکھ سے پھوٹا ہے 
میری ماتمی چادر 
نہیں تبدیل ہوگی آج کے دن بھی 
جو راکھ اڑتی تھی خوابوں کی بدن میں 
یوں ہی آشفتہ رہے گی 
اور اداسی کی یہی صورت رہے گی 
میں اپنے سوگ میں ماتم کناں 
یوں سر بہ زانو رات تک بیٹھی رہوں گی 
اور مرے خوابوں کا پرسہ آج بھی کوئی نہیں دے گا 
مگر یہ کون ہے 
جو یوں مجھے باہر بلاتا ہے 
بڑی نرمی سے کہتا ہے 
کہ اپنے حجرہ غم سے نکل کر باغ میں آؤ 
ذرا باہر تو دیکھو 
دور تک سبزہ بچھا ہے 
اور ہری شاخوں پہ نارنجی شگوفے مسکراتے ہیں 
ملائم سبز پتوں پر پڑی شبنم 
سنہری دھوپ میں ہیرے کی صورت جگمگاتی ہے 
درختوں میں چھپی ندی 
بہت دھیمے سروں میں گنگناتی ہے 
چمکتے زرد پھولوں سے لدی ننھی پہاڑی کے عقب میں 
نقرئی چشمہ خوشی سے کھلکھلاتا ہے 
پرند خوش گلو 
شاخ شگفتہ پر چہکتا ہے 
گھنے جنگل میں بارش کا غبار سبز 
سطح شیشہ دل پر 
ملائم انگلیوں سے مرحبا کے لفظ لکھتا ہے 
کوئی آتا ہے 
آ کر چادر غم کو بڑی آہستگی سے 
میرے شانوں سے ہٹا کر 
سات رنگوں کا دوپٹہ کھول کر مجھ کو اڑاتا ہے 
میں کھل کر سانس لیتی ہوں 
مرے اندر 
کوئی پیروں میں گھنگھرو باندھتا ہے 
رقص کا آغاز کرتا ہے 
مرے کانوں کے آویزوں کو یہ کس نے چھوا 
جس سے لویں پھر سے گلابی ہو گئی ہیں 
کوئی سرگوشیوں میں پھر سے میرا نام لیتا ہے 
فضا کی نغمگی آواز دیتی ہے 
.ہوا جام صحت تجویز کرتی ہے

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *