Iztirab

Iztirab

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی 
برہم ہوئی ہے ، یوں بھی طبیعت کبھی کبھی 
اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب 
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی 
تیرے کرم سے اے الم حسن آفریں 
دل بن گیا ہے ، دوست کی خلوت کبھی کبھی 
جوش جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ 
اشکوں میں ڈھل گئی ، تیری صورت کبھی کبھی 
تیرے قریب رہ کہ بھی دل مطمئن نہ تھا 
گزری ہے مُجھ پہ ، یہ بھی قیامت کبھی کبھی 
کچھ اپنا ہوش تھا ، نہ تمہارا خیال تھا 
یوں بھی گزر گئی ، شب فرقت کبھی کبھی 
اے دوست ہم نے ترک محبت کہ باوجود 
.محسوس کی ہے ، تیری ضرورت کبھی کبھی

ناصر کاظمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *