ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب اور باقی میرے تیرے درمیاں صدہا حساب دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل آنکھیں ملتے جس طرح اٹھے کوئی مست شباب گیسوئے خم دار میں اشعار تر کی ٹھنڈکیں آتش رخسار میں قلب تپاں کا التہاب ایک عالم پر نہیں رہتی ہیں کیفیات عشق گاہ ریگستاں بھی دریا گاہ دریا بھی سراب کون رکھ سکتا ہے اس کو ساکن و جامد کہ زیست انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب ڈھونڈئیے کیوں استعارہ اور تشبیہ و مثال حسن تو وہ ہے بتائیں جس کو حسن لاجواب اے فراقؔ اٹھتی ہیں حیرت کی نگاہیں با ادب اس کے دل کی خلوتوں میں ہو رہا ہوں باریاب
فراق گورکھپوری