Iztirab

Iztirab

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں 
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں 
ہیں دور جام اول شب میں خُودی سے دور 
ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں 
یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر 
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں 
اِک عمر چاہیئے کے گوارا ہو نیش عشق 
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں 
بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا 
خط کا میرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں 
کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر 
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں 
ہم جس پہ مر رہے ہیں ، وہ ہے بات ہی کچھ اور 
عالم میں تُجھ سے لاکھ سہی تُو مگر کہاں 
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی 
دل چاہتا نہ ہو تُو زباں میں اثر کہاں 
حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈھتے ہو اب 
.آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں 

الطاف حسین حالی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *