Iztirab

Iztirab

ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے

ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے 
دیکھو تو تہ نقاب کیا ہے 
میں نے تجھے تو نے مجھ کو دیکھا 
اب مجھ سے تجھے حجاب کیا ہے 
آئے ہو تو کوئی دم تو بیٹھو 
اے قبلہ یہ اضطراب کیا ہے 
اس بن ہمیں جاگتے ہی گزری 
جانا بھی نہ یہ کہ خواب کیا ہے 
مجھ کو بھی گنے وہ عاشقوں میں 
اس بات کا سو حساب کیا ہے 
سیپارۂ دل کو دیکھ اس نے 
پوچھا بھی نہ یہ کتاب کیا ہے 
اس مے کدۂ جہاں میں یارو 
مجھ سا بھی کوئی خراب کیا ہے 
قسمت میں ہماری مصحفیؔ ہائے 
کیا جانے ثواب عذاب کیا ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *