Iztirab

Iztirab

یاد

وہ نغمے وہ مناظر وہ بہاریں یاد ہیں مجھ کو 
یہی وہ نقش ہیں جو مٹ نہیں سکتے مٹانے سے 
وہ راتیں اور وہ ساون کی پھواریں یاد ہیں مجھ کو 
یہی افسانے اکثر کہتا رہتا ہوں زمانے سے 
وہ تیرا مسکرا کر چاند کو تابندگی دینا 
شراب عشق سے مخمور ہو جانا فضاؤں کا 
وہ تیری مست آنکھوں کا نوید زندگی دینا 
وہ اکثر کھیلنا زلف پریشاں سے ہواؤں کا 
مرا دل ہو گیا ہے گردش ایام سے واقف 
بلند و پست عالم پھر رہے ہیں میری آنکھوں میں 
مذاق دل بری ہے عشق کے پیغام سے واقف 
تصور ہے مرا کھویا ہوا سا تیری آنکھوں میں 
تو مجھ سے دور ہے لیکن تجھے میں یاد کرتا ہوں 
نہ جب فریاد کرتا تھا نہ اب فریاد کرتا ہوں 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *