Iztirab

Iztirab

یارب آباد ہوویں گھر سب کے

یارب آباد ہوویں گھر سب کے 
پھریں خط لے کے نامہ بر سب کے 
کس کی مژگان ہیں کہ سینوں میں 
یک بیک چھن گئے جگر سب کے 
شب کی شب گل چمن کے ہیں مہمان 
برگ جھڑ جائیں گے سحر سب کے 
ایک عاشق پہ التفات نہ کر 
حال پر رکھ میاں نظر سب کے 
دیجو پیغام ہی مرا قاصد 
لے چلا ہے تو خط اگر سب کے 
جتنے ہیں گرد و پیش ہمسائے 
گھر ڈبوئے گی چشم تر سب کے 
ہم رہے پیچھے وائے گرم رواں 
پہنچے منزل پہ پیشتر سب کے 
میرے سوز جنوں کی دہشت سے 
بند رہتے ہیں دن کو گھر سب کے 
دل ہی اپنا ہے چینیٔ مو دار 
حصے آئے نہ وہ کمر سب کے 
ہاتھ اٹھتے تھے پیٹنے کے لیے 
تیرے کشتے کی لاش پر سب کے 
گر یہی ہے رسائی صیاد 
ایک دن باندھے گا یہ پر سب کے 
کیا دکھاوے صفائی طبع مری 
جس جگہ ہوں خذف گہر سب کے 
دوستی کر دلا نہ ان سے کہ ہیں 
دشمن جاں یہ سیم بر سب کے 
تھے جو سلطان بحر و بر آخر 
گئے برباد تاج زر سب کے 
وائے دنیا کہ رلتے پھرتے ہیں 
خاک میں کاسہ ہائے سر سب کے 
مصحفیؔ یہ جو ہیں امیر و فقیر 
دل میں ہے موت کا خطر سب کے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *