یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو جس بات کو جی چاہے ہے وہ بات کہیں ہو گر قرب سخن اس سے نہیں دور سے اے کاش نظروں ہی میں ٹک حرف و حکایت کہیں ہو پھرتا ہے حسینوں سے بہت آنکھیں لڑاتا ڈرتا ہوں نہ دل مصدر آفات کہیں ہو ہوتے ہوئے دشمن کے کہوں کیوں کے میں کچھ بات مجلس سے تری دفعہ یہ بد ذات کہیں ہو کاغذ پہ شب و روز تری کھینچوں ہوں تصویر یعنی اسی صورت بسر اوقات کہیں ہو ہے آج کی شب وعدۂ وصل اس کا مرے ساتھ یارب کہ شتابی سے یہ دن رات کہیں ہو دے ڈالو دل مصحفیؔ تم ورنہ مری جان رسوائی ہے وہ تم پہ گر اثبات کہیں ہو
غلام ہمدانی مصحفی