Iztirab

Iztirab

یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو

یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو 
جس بات کو جی چاہے ہے وہ بات کہیں ہو 
گر قرب سخن اس سے نہیں دور سے اے کاش 
نظروں ہی میں ٹک حرف و حکایت کہیں ہو 
پھرتا ہے حسینوں سے بہت آنکھیں لڑاتا 
ڈرتا ہوں نہ دل مصدر آفات کہیں ہو 
ہوتے ہوئے دشمن کے کہوں کیوں کے میں کچھ بات 
مجلس سے تری دفعہ یہ بد ذات کہیں ہو 
کاغذ پہ شب و روز تری کھینچوں ہوں تصویر 
یعنی اسی صورت بسر اوقات کہیں ہو 
ہے آج کی شب وعدۂ وصل اس کا مرے ساتھ 
یارب کہ شتابی سے یہ دن رات کہیں ہو 
دے ڈالو دل مصحفیؔ تم ورنہ مری جان 
رسوائی ہے وہ تم پہ گر اثبات کہیں ہو 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *