Iztirab

Iztirab

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے 
گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے 
اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ 
شکوہ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے 
فتنہ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا 
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے 
ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں 
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے 
باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے 
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے 
جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبی بزم 
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے 
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ 
.حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے

علامہ شبلی نعمانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *