Iztirab

Iztirab

یعنی

میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں 
لیکن اس میں کیا بات کہوں 
اک بات میں بھی سو باتیں ہیں 
کہیں جیتیں ہیں کہیں ماتیں ہیں 
دل کہتا ہے میں سنتا ہوں 
من مانے پھول یوں چنتا ہوں 
جب مات ہو مجھ کو چپ نہ رہوں 
اور جیت جو ہو درانہ کہوں 
پل کے پل میں اک نظم لکھوں 
لیکن اس میں کیا بات کہوں 
جب یوں الجھن بڑھ جاتی ہے 
تب دھیان کی دیوی آتی ہے 
اکثر تو وہ چپ ہی رہتی ہے 
کہتی ہے تو اتنا کہتی ہے 
کیوں سوچتے ہو اک نظم لکھو 
کیوں اپنے دل کی بات کہو 
بہتر تو یہی ہے چپ ہی رہو 

لیکن پھر سوچ یہ آتی ہے 
جب ندی بہتی جاتی ہے 
اور اپنی اننت کہانی میں 
یوں بے دھیانی میں روانی میں 
مانا ہر موڑ پہ مڑتی ہے 
پر جی کی کہہ کے گزرتی ہے 
سر پر آئی سہہ جاتی ہے 
اور منہ آئی کہہ جاتی ہے 
دھرتی کے سینے پہ چڑھتی ہے 
اور آگے ہی آگے بڑھتی ہے 
یوں میں بھی دل کی بات کہوں 
جی میں آئے تو نظم لکھوں 
چاہے اک بات میں سو باتیں 
جیتیں لے آئیں یا ماتیں 
چاہے کوئی بات بنے نہ بنے 
چاہے سکھ ہوں یا دکھ اپنے 
چاہے کوئی مجھ سے آ کے کہے 
کیوں بول اٹھے کیوں چپ نہ رہے 

چاہے میں کہہ کر چپ ہی رہوں 
میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں 
لیکن اس میں کیا بات کہوں 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *