Iztirab

Iztirab

یوں تو کہنے کو تری راہ کا پتھر نکلا

یوں تو کہنے کو تری راہ کا پتھر نکلا
تو نے ٹھوکر جو لگا دی تو مرا سر نکلا
لوگ تو جا کے سمندر کو جلا آئے ہیں
میں جسے پھونک کر آیا وہ مرا گھر نکلا
ایک وہ شخص جو پھولوں سے بھرے تھا دامن
ہر کف گل میں چھپائے ہوئے خنجر نکلا
یوں تو الزام ہے طوفاں پہ ڈبو دینے کا
تہہ میں دریا کی مگر ناؤ کا لنگر نکلا
گھر کے گھر خاک ہوئے جل کے ندی سوکھ گئی
پھر بھی ان آنکھوں میں جھانکا تو سمندر نکلا
فرش تا عرش کوئی نام و نشاں مل نہ سکا
میں جسے ڈھونڈھ رہا تھا مرے اندر نکلا
بیکل اتساہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *