Iztirab

Iztirab

یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا

یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا 
جیسے درخت سے کوئی پتا گرا ہوا 
ہو ہی گیا ہے نبض شناس غم جہاں 
سینے میں عشق کے مرا دل کانپتا ہوا 
ملتا سراغ خاک مجھے میرے سائے کا 
ہر سمت ظلمتوں کا تھا جنگل اگا ہوا 
کل رات خواب میں جو مقابل تھا آئنہ 
میرا ہی قد مجھے نظر آیا بڑھا ہوا 
جانے بھی دو وہ چاند نہیں ہوگا کوئی اور 
پامال آدمی جو ہوا چاند کیا ہوا 
باہر کے شور و غل ہی سے شاید وہ بول اٹھے 
بیٹھا ہے کب سے چپ کوئی اندر چھپا ہوا 
پنچھی اڑا تو ختم بھی ہو جائے گا ضیاؔ 
سانسوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *