Iztirab

Iztirab

یوں قتل عام نوع بشر کر دیا گیا

یوں قتل عام نوع بشر کر دیا گیا 
راسخ طبیعتوں ہی میں ڈر کر دیا گیا 
تاریخ سرخ رو ہے انہیں حادثات سے 
جن حادثوں سے قطع نظر کر دیا گیا 
اس ڈر سے جاگ اٹھے نہ کہیں راستے کی چاپ 
کچھ قافلوں کو شہر بدر کر دیا گیا 
سر دوش پر رہا نہ رہا لیکن آخرش 
یہ معرکۂ سخت بھی سر کر دیا گیا 
مقصود تو تھا حسن طلوع و غروب کا 
پردہ میان شام و سحر کر دیا گیا 
الفاظ دل کی آگ سے محروم ہو گئے 
جب شاعری کو صرف ہنر کر دیا گیا 
کچھ پتھروں میں قید رہے عمر بھر ضمیرؔ 
تھی قبر اصل میں جسے گھر کر دیا گیا 

سید ضمیر جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *