Iztirab

Iztirab

یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی

یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی 
نغمے بنے ہیں گریۂ پنہاں کبھی کبھی 
ہونکی ہیں باد صبح کی رو میں بھی آندھیاں 
ابلا ہے ساحلوں سے بھی طوفاں کبھی کبھی 
بڑھتا چلا گیا ہوں انہی کی طرف کچھ اور 
یوں بھی ہوا ہوں ان سے گریزاں کبھی کبھی 
آنچوں میں گنگناتے ہیں گلزار گاہ گاہ 
شعلوں سے پٹ گیا ہے گلستاں کبھی کبھی 
لے سے نکل پڑی ہے کبھی ہچکیوں کی فوج 
آہیں بنی ہیں راگ کا عنواں کبھی کبھی 
دامان گل رخاں کی اڑا دی ہیں دھجیاں 
پھاڑا ہے ہم نے یوں بھی گریباں کبھی کبھی 
کلیاں جھلس گئی ہیں دہکنے لگے ہیں پھول 
یوں بھی چلی ہے باد بہاراں کبھی کبھی 
اس وقت بھی کہ خاطر مجموعہ تھی نصیب 
.کم بخت دل ہوا ہے پریشاں کبھی کبھی

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *