Iztirab

Iztirab

یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے

یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے 
چراغ دل کہ سلگتا ہے آج سب کے لئے 
کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں 
کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے 
افق سے چاند کی چمپا کلی ابھرتی ہے 
سجائے جاتے ہیں زیور نگار شب کے لئے 
ترے گدا نے بھی ساغر کا نقرئی آنچل 
کہیں سے مانگ لیا دختر عنب کے لئے 
تمام عمر بہ فیض نگاہ لالہ رخاں 
سند رہا ہوں اشارات چشم و لب کے لئے 
چمن سے پھول کے دھوکے میں چن لئے شعلے 
کف وفا کے لئے دامن طلب کے لئے 
کہیں جو پرسش احوال پر وہ مائل ہوں 
کہ ہم نے دل کو سنبھالا ہوا ہے جب کے لئے 
مجھے خبر ہے بہت سے متاع ذوق نظر 
دکان کاکل و رخسار و چشم و لب کے لئے 
ستارہ صبح کا روشن تھا شام سے عابدؔ 
یہی تھی موت حریفان بزم شب کے لئے 

سید عابد علی عابد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *