Iztirab

Iztirab

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے
لٹاتے دولت دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مے نقرئی سبو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاض گردن جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہ سحری تکمہ گلو کرتے
یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبت رخ یار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے
سکھاتے نالہ شبگیر کو در اندازی
غم فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جان جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
.برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

خواجہ حیدر علی آتش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *