Iztirab

Iztirab

یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا

یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا
ٹوٹا ہوں اس بنا پہ کہ میں کج نہاد تھا
الزام اپنی موت کا موسم پہ کیوں دھروں
میرے بدن میں میرے لہو کا فساد تھا
اب میں بھی جل کے راکھ ہوں میرے جہاز بھی
کل میرا نام طارق ابن زیاد تھا
ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی
اپنے خدا پہ کتنا مجھے اعتماد تھا
گہرے سمندروں میں بھی پتھر ملے مجھے
تھا میں گہر شناس مگر سنگ زاد تھا
تو بادباں دریدہ سفینے کا ناخدا
اور قلزم سراب کا میں سندباد تھا
اب ہوں زباں بریدہ تو یہ سوچ کر ہوں چپ
یہ بھی سخن شناس کا انداز داد تھا
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *