Iztirab

Iztirab

یہ بھی نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

یہ بھی نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی 
یہ بھی ہے سچ کہ دید کی حسرت نہیں رہی 
دل ان کی اس ادا سے بھی مانوس ہو گیا 
اب جور بے رخی کی شکایت نہیں رہی 
دونوں بدلتے وقت کے سانچے میں ڈھل گئے 
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی 
کیا دیکھتے ہیں دیکھ کے پیش نظر انہیں 
گویا نگہ میں دید کی طاقت نہیں رہی 
اب خواب ہی میں ان سے ملاقات ہو تو ہو 
ملنے کی ان کی اور تو صورت نہیں رہی 
جب کچھ نہ تھے خیال تھا نام و نمود کا 
اب کچھ ہوئے تو خواہش شہرت نہیں رہی 
صد حیف ظرف ولولۂ دل کے باوجود 
پہلی سی وہ جسارت و جرأت نہیں رہی 
انسانیت کے نام کا چرچا تو ہے مگر 
انسانیت عمل سے عبارت نہیں رہی 
دیکھ اے رشیؔ کمال فسون جدیدیت 
اب احترام فن کی ضرورت نہیں رہی 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *