یہ بھی نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی یہ بھی ہے سچ کہ دید کی حسرت نہیں رہی دل ان کی اس ادا سے بھی مانوس ہو گیا اب جور بے رخی کی شکایت نہیں رہی دونوں بدلتے وقت کے سانچے میں ڈھل گئے وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی کیا دیکھتے ہیں دیکھ کے پیش نظر انہیں گویا نگہ میں دید کی طاقت نہیں رہی اب خواب ہی میں ان سے ملاقات ہو تو ہو ملنے کی ان کی اور تو صورت نہیں رہی جب کچھ نہ تھے خیال تھا نام و نمود کا اب کچھ ہوئے تو خواہش شہرت نہیں رہی صد حیف ظرف ولولۂ دل کے باوجود پہلی سی وہ جسارت و جرأت نہیں رہی انسانیت کے نام کا چرچا تو ہے مگر انسانیت عمل سے عبارت نہیں رہی دیکھ اے رشیؔ کمال فسون جدیدیت اب احترام فن کی ضرورت نہیں رہی
رشی پٹیالوی