Iztirab

Iztirab

یہ تو نہیں کہ تم سے محبت نہیں مجھے

یہ تو نہیں کہ تم سے محبت نہیں مجھے 
اتنا ضرور ہے کہ شکایت نہیں مجھے 
میں ہوں کہ اشتیاق میں سر تا قدم نظر 
وہ ہیں کہ اک نظر کی اجازت نہیں مجھے 
آزادئ گناہ کی حسرت کے ساتھ ساتھ 
آزادئ خیال کی جرأت نہیں مجھے 
دوبھر ہے گرچہ جور عزیزاں سے زندگی 
لیکن خدا گواہ شکایت نہیں مجھے 
جس کا گریز شرط ہو تقریب دید میں 
اس ہوش اس نظر کی ضرورت نہیں مجھے 
جو کچھ گزر رہی ہے غنیمت ہے ہم نشیں 
اب زندگی پہ غور کی فرصت نہیں مجھے 
میں کیوں کسی کے عہد وفا کا یقیں کروں 
اتنی شدید غم کی ضرورت نہیں مجھے 
سجدے مرے خیال جزا سے ہیں ماورا 
مقصود بندگی سے تجارت نہیں مجھے 
میں اور دے سکوں نہ ترے غم کو زندگی 
ایسی تو زندگی سے محبت نہیں مجھے 
احسانؔ کون مجھ سے سوا ہے مرا عدو 
اپنے سوا کسی سے شکایت نہیں مجھے 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *