Iztirab

Iztirab

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں 
بھرا ہے موئے بہ مو سحر سامری جس میں 
یہ لعل لخت جگر ہے وہ لعل بیش بہا 
کہ کام کرتی نہیں چشم جوہری جس میں 
دیا ہے میں نے دل ایسے کو اور پریشاں ہوں 
نہ مہر ہے نہ محبت نہ دلبری جس میں 
خدا دو چار نہ ہم سے کرے کبھی اس کو 
نکلتی ہو تری آنکھوں سے کافری جس میں 
ہٹے ہے مانیؔ سے لیلیٰ کہ وہ ورق تو دکھا 
لکھی ہے صورت مجنوں کی لاغری جس میں 
غضب ہے تو نے نہ دیکھا وہی مرا دل تھا 
بندھی ہوئی تھی ترے تیر کی سری جس میں 
کسی سے کام میاں مصحفیؔ نہ کچھ رکھیے 
وہ کام کیجئے ہو اپنی بہتری جس میں

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *