Iztirab

Iztirab

یہ دور خرد ہے دور جنوں اس دور میں جینا مشکل ہے

یہ دور خرد ہے دور جنوں اس دور میں جینا مشکل ہے 
انگور کی مے کے دھوکے میں زہراب کا پینا مشکل ہے 
جب ناخن وحشت چلتے تھے روکے سے کسی کے رک نہ سکے 
اب چاک دل انسانیت سیتے ہیں تو سینا مشکل ہے 
اک صبر کے گھونٹ سے مٹ جاتی تب تشنہ لبوں کی تشنہ لبی 
کم ظرفیٔ دنیا کے صدقے یہ گھونٹ بھی پینا مشکل ہے 
وہ شعلہ نہیں جو بجھ جائے آندھی کے ایک ہی جھونکے سے 
بجھنے کا سلیقہ آساں ہے جلنے کا قرینہ مشکل ہے 
کرنے کو رفو کر ہی لیں گے دنیا والے سب زخم اپنے 
جو زخم دل انساں پہ لگا اس زخم کا سینہ مشکل ہے 
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے 
اس حال میں جینا لازم ہے جس حال میں جینا مشکل ہے 
ملنے کو ملے گا بالآخر اے عرشؔ سکون ساحل بھی 
طوفان حوادث سے لیکن بچ جائے سفینہ مشکل ہے

عرش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *