Iztirab

Iztirab

یہ روز حشر کا اور شکوہ وفا کے لئے

یہ روز حشر کا اور شکوہ وفا کے لئے
خدا کے سامنے تو چپ رہو خدا کے لئے
الٰہی وقت بدل دے مری قضا کے لئے
جو کوستے تھے وہ بیٹھے ہیں اب دعا کے لئے
بھنور سے ناؤ بچے تیرے بس کی بات نہیں
خدا پہ چھوڑ دے اے ناخدا خدا کے لئے
ہمارے واسطے مرنا تو کوئی بات نہیں
مگر تمہیں نہ ملے گا کوئی وفا کے لئے
ہزار بار ملے وہ مگر نصیب کی بات
کبھی زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لئے
کوئی ضرور ہے دیدار آخری میں نقاب
ہزار وقت پڑے ہیں تری حیا کے لئے
مجھے مٹا تو رہے ہو مآل بھی سوچو
خطا معاف ترس جاؤ گے وفا کے لئے
وہ جان کر مجھے تنہا مری نہیں سنتے
کہاں سے لاؤں زمانے کو التجا کے لئے
مرے جلے ہوئے تنکوں کی گرمیاں توبہ
کھلا ہوا ہے گریبان گل ہوا کے لئے
مریض کتنا تھا خوددار جان تک دے دی
مگر زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لئے
وہ ابتدائے محبت وہ احتیاط کلام
بنائے جاتے تھے الفاظ التجا کے لئے
ذرا مریض محبت کو تم بھی دیکھ آؤ
کہ منع کرتے ہیں اب چارہ گر دوا کے لئے
قمرؔ نہیں ہے وفادار خیر یوں ہی سہی
حضور اور کوئی ڈھونڈھ لیں وفا کے لئے

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *