Iztirab

Iztirab

یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں

یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں 
یوں ہی کب تلک خدایا غم زندگی نباہیں 
کہیں ظلمتوں میں گھر کر ہے تلاش دشت رہبر 
کہیں جگمگا اٹھی ہیں مرے نقش پا سے راہیں 
ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا 
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں 
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ 
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں بانہیں 
مرے عہد میں نہیں ہے یہ نشان سربلندی 
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کلاہیں 

مجروح سلطانپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *