Iztirab

Iztirab

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے
ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے فردوس بہ داماں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرہ شبنم میں ہنگامہ طوفاں ہے
اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدہ حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے
اک شورش بے حاصل اک آتش بے پردا
آفت کدہ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے
دھوکا ہے یہ نظروں کا بازیچہ ہے لذت کا
جو کنج قفس میں تھا وہ اصل گلستاں ہے
اک غنچہ افسردہ یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موجزنی خوں کی رنگینئ پیکاں ہے
یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوش تبسم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے
اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *