Iztirab

Iztirab

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے 
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے 
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو 
بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے 
بہ رنگ عود ملے گی اسے مری خوشبو 
وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جلائے مجھے 
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں 
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے 
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا 
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے 
میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا 
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے 
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا 
گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے 
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم 
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے 
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا 
وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے 
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیلؔ 
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *