Iztirab

Iztirab

یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے

یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے 
بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے 
باریابی کا برا ہو کہ اب ان کے در پر 
اگلے وقتوں کی مدارات نہیں ہوتی ہے 
غم تو گھنگھور گھٹاؤں کی طرح اٹھتے ہیں 
ضبط کا دشت ہے برسات نہیں ہوتی ہے 
یہ مرا تجربہ ہے حسن کوئی چال چلے 
بازیٔ عشق کبھی مات نہیں ہوتی ہے 
وصل ہے نام ہم آہنگی و یک رنگی کا 
وصل میں کوئی بری بات نہیں ہوتی ہے 
ہجر تنہائی ہے سورج ہے سوا نیزے پر 
دن ہی رہتا ہے یہاں رات نہیں ہوتی ہے 
ضبط گریہ کبھی کرتا ہوں تو فرماتے ہیں 
آج کیا بات ہے برسات نہیں ہوتی ہے 
مجھے اللہ کی قسم شعر میں تحسین بتاں 
میں جو کرتا ہوں میری ذات نہیں ہوتی ہے 
فکر تخلیق سخن مسند راحت پہ حفیظ 
باعث کشف و کرامات نہیں ہوتی ہے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *