یہ میرے چاروں طرف کس لیے اجالا ہے ترا خیال ہے یا دن نکلنے والا ہے یقین مانو میں کب کا بکھر گیا ہوتا تمہاری یاد نے اب تک مجھے سنبھالا ہے ہجوم جشن میں کرتا ہے غم زدوں کو تلاش مجھے جنوں نے عجب امتحاں میں ڈالا ہے کسی کا نام تو ہم لے کے شب میں سوتے ہیں کوئی تو ہے جو سحر دم جگانے والا ہے زمانہ ساز ڈریں گردش زمانہ سے ہمارا کیا ہے ہمیں حادثوں نے پالا ہے یہی بہت ہے کہ نقش قدم سے بچ جائیں سخن میں راستہ کس نے نیا نکالا ہے خدا کرے کہ اسے علم بھی نہ ہو محسنؔ وہ جس کے گرد مری چاہتوں کا ہالا ہے