Iztirab

Iztirab

یہ پیرہن جو مری روح کا اتر نہ سکا

یہ پیرہن جو مری روح کا اتر نہ سکا 
تو نخ بہ نخ کہیں پیوست ریشہ دل تھا 
مجھے مآل سفر کا ملال کیوں کر ہو 
کہ جب سفر ہی مرا فاصلوں کا دھوکا تھا 
میں جب فراق کی راتوں میں اس کے ساتھ رہی 
وہ پھر وصال کے لمحوں میں کیوں اکیلا تھا 
وہ واسطے کی ترا درمیاں بھی کیوں آئے 
خدا کے ساتھ مرا جسم کیوں نہ ہو تنہا 
سراب ہوں میں تری پیاس کیا بجھاؤں گی 
اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا 
سراب ہوں کہ بدن کی یہی شہادت ہے 
ہر ایک عضو میں بہتا ہے ریت کا دریا 
جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے 
جو میرے دل میں ہے اس حرف رایگاں پہ نہ جا 
جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم 
.شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *