Iztirab

Iztirab

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے 
وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے 
گلوں کی گم شدگی سے سراغ ملتا ہے 
کہیں چمن سے نسیم بہار گزری ہے 
کہیں سحر کا اجالا ہوا ہے ہم نفسو 
کہ موج برق سر شاخسار گزری ہے 
رہا ہے یہ سر شوریدہ مثل شعلہ بلند 
اگرچہ مجھ پہ قیامت ہزار گزری ہے 
یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ عشق یار کی یاد 
دیار قلب سے بیگانہ وار گزری ہے 
انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت 
انہیں کو عرض وفا نا گوار گزری ہے 
حریم شوق مہکتا ہے آج تک عابدؔ 
یہاں سے نکہت گیسوئے یار گزری ہے 

سید عابد علی عابد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *