یہ کیا کہا کہ جمال ان کا بے حجاب نہ تھا یہ ماہتاب نہیں تھا یہ آفتاب نہ تھا نہ ہے وہ دور جو مجروح انقلاب نہ تھا تمہارے حسن مرے عشق کا جواب نہ تھا جہان غم میں تصور بھی کامیاب نہ تھا شفاؔ ہماری قیامت میں آفتاب نہ تھا یہ تھا حجاب فریب اس کا یا فریب حجاب کہ بے حجاب تھا وہ اور بے حجاب نہ تھا وہ برہمی سے سہی مجھ کو دیکھ تو لیتے خراب تھا مگر اتنا تو میں خراب نہ تھا خطا معاف ہو وہ دن بھی یاد ہیں کہ نہیں ہمیں حجاب تھا اور آپ کو حجاب نہ تھا دل شفق سے لب گل سے چشم شبنم سے کہاں کہاں سے فروزاں ترا شباب نہ تھا شفاؔ وہ روتا نہ کیونکر گلوں کے ہنسنے پر جو غم نصیب کہ غم میں بھی کامیاب نہ تھا
شفا گوالیاری