Iztirab

Iztirab

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا 
میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا 
اس موڑ سے آگے بھی کوئی موڑ ہے ورنہ 
یوں میرے لیے تو کبھی ٹھہرا نہیں ہوتا 
کیوں میرا مقدر ہے اجالوں کی سیاہی 
کیوں رات کے ڈھلنے پہ سویرا نہیں ہوتا 
یا اتنی نہ تبدیل ہوئی ہوتی یہ دنیا 
یا میں نے اسے خواب میں دیکھا نہیں ہوتا 
سنتے ہیں سبھی غور سے آواز جرس کو 
منزل کی طرف کوئی روانہ نہیں ہوتا 
دل ترک تعلق پہ بھی آمادہ نہیں ہے 
اور حق بھی ادا اس سے وفا کا نہیں ہوتا

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *