Iztirab

Iztirab

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا 
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا 
ترک دنیا کا یہ دعویٰ ہے فضول اے زاہد 
بار ہستی تو ذرا سر سے اتارا ہوتا 
وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی 
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا 
زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب 
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا 
عظمت گریہ کو کوتاہ نظر کیا سمجھیں 
اشک اگر اشک نہ ہوتا تو ستارا ہوتا 
لب زاہد پہ ہے افسانۂ حور جنت 
کاش اس وقت مرا انجمن آرا ہوتا 
غم الفت جو نہ ملتا غم ہستی ملتا 
کسی صورت تو زمانے میں گزارا ہوتا 
کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی 
گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا 
کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اخترؔ 
دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا 

اختر شیرانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *