Iztirab

Iztirab

دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو

ہم بھی آرام اٹھا سکتے تھے گھر پر رہ کر
ہم کو بھی پالا تھا ماں باپ نے دکھ سہہ سہہ کر
وقت رخصت انہیں اتنا بھی نہ آئے کہہ کر
گود میں آنسو کبھی ٹپکے جو رخ سے بہہ کر
طفل ان کو ہی سمجھ لینا جی بہلانے کو
دیش سیوا ہی کا بہتا ہے لہو نس نس میں
اب تو کھا بیٹھے ہیں چتوڑ کے گڑھ کی قسمیں
سرفروشی کی ادا ہوتی ہیں یوں ہی رسمیں
بھائی خنجر سے گلے ملتے ہیں سب آپس میں
بہنیں تیار چتاؤں پہ ہیں جل جانے کو
نوجوانوں جو طبیعت میں تمہاری کھٹکے
یاد کر لینا کبھی ہم کو بھی بھولے بھٹکے
آپ کے عضو بدن ہوویں جدا کٹ کٹ کے
اور صد چاک ہو ماتا کا کلیجہ پھٹکے
پر نہ ماتھے پہ شکن آئے قسم کھانے کو
اپنی قسمت میں ازل سے ہی ستم رکھا تھا
رنج رکھا تھا محن رکھا تھا غم رکھا تھا
کس کو پرواہ تھا اور کس میں یہ دم رکھا تھا
ہم نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
اپنا کچھ غم نہیں ہے پر یہ خیال آتا ہے
مادر ہند پہ کب سے یہ زوال آتا ہے
دیش آزادی کا کب ہند میں سال آتا ہے
قوم اپنی پہ تو رہ رہ کے ملال آتا ہے
منتظر رہتے ہیں ہم خاک میں مل جانے کو

رام پرشاد بسمل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *