Iztirab

Iztirab

بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے

بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے
اے دوست مجھے غم کی ضرورت سی لگے ہے
روداد محبت کی کسی کو نہ سناؤ
کچھ لوگ ہیں جن کو یہ شکایت سی لگے ہے
دم توڑتی قدروں کو بچانے کی اچھل کود
فطرت کے اصولوں سے بغاوت سی لگے ہے
دنیائے تماشا تو بدلتی ہے کئی رنگ
گہہ خواب لگے گاہ حقیقت سی لگے ہے
احساس کا دھوکا ہے یہ جذبات کا جادو
اپنوں کی عداوت بھی محبت سی لگے ہے
بے ربط خیالوں کے شگوفوں کی لطافت
مجبور غریبوں کی ذہانت سی لگے ہے
طالبؔ کو شرافت پہ بڑا ناز تھا لیکن
اب اس کی شرافت بھی حماقت سی لگے ہے

طالب چکوالی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *