Iztirab

Iztirab

مجبوری

بہت جی چاہتا ہے ہر کسی سے پیار کرنے کو
مگر ایسی کہاں قسمت کہ دل مجھ کو ڈراتا ہے
کئی بے رنگ سے خاکے کئی صد رنگ تصویریں
خدا معلوم کن تاریکیوں سے کھینچ لاتا ہے
سناتا ہے کبھی بیتی ہوئی باتوں کی شہنائی
کبھی ماضی کے البم سے مجھے فوٹو دکھاتا ہے
جنہیں میں بھول جانا چاہتا ہوں وہ حسیں چہرے
زبردستی دکھاتا اور مجھ پر مسکراتا ہے
انہیں کیا جانتے ہو تم انہیں پہچانتے ہو تم
ادائے طنز سے ہر ایک پر انگلی اٹھاتا ہے
یہی تو ہیں وہ جن کے رات دن تم گیت گاتے تھے
یہی تو ہیں وہ جن پر پیار اب بھی تم کو آتا ہے
میں کہتا ہوں خدا کے واسطے خاموش ہو جاؤ
ستانے میں کسی مجبور کو کیا لطف آتا ہے
مری مجبوریاں کافی نہیں کیا منہ چڑھانے کو
جو تو بھی منہ چڑھاتا اور میری جان کھاتا ہے
جسے میں چاہتا ہوں پیار کر سکتا نہیں اس سے
میں جس سے پیار کرتا ہوں وہ مجھ سے روٹھ جاتا ہے

طالب چکوالی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *