Iztirab

Iztirab

در محبوب پر سجدہ اگر اک بار ہو جائے

در محبوب پر سجدہ اگر اک بار ہو جائے 
دل پر آرزو سر چشمۂ انوار ہو جائے 

تجلی عام ہو اور وا در اسرار ہو جائے 
جبین دل جو نقش آستان یار ہو جائے 

کمال ضبط کی خاطر گوارا ہی نہیں مجھ کو 
کہ حرف آرزو شرمندۂ اظہار ہو جائے 

مری کشتی ہے میں ہوں اور گرداب محبت ہے 
جو وہ ہو نا خدا میرا تو بیڑا پار ہو جائے 

زہے شان براہیمی کہ نمرودوں کی دنیا میں 
وہ جس آتش کو بھی کہہ دے وہی گلزار ہو جائے 

جو وہ چاہے تو مجھ کو اک نظر سے زندگی بخشے 
جو وہ چاہے تو بخت خفتہ بھی بیدار ہو جائے 

کرم اس کا ہے یہ یا معجزہ میرے تصور کا 
جہاں کر لوں میں بند آنکھیں وہیں دیدار ہو جائے 

ترے پینے کو روز آیا کرے گی عرش اعظم سے 
مئے عشق محمد سے جو تو سرشار ہو جائے 

عرش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *