Iztirab

Iztirab

ساون

کوئل کی سریلی تانوں پر تھم تھم کے پپیہا گاتا ہے 
حل ہو کے ہوا کی لہروں میں ساون کا مہینہ آتا ہے 
ٹھنڈی پروا کالا بادل برسا تو برستا جاتا ہے 
بوندوں کی مسلسل چوٹوں سے پتا پتا تھراتا ہے 
ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے 
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے 
صحرا میں ہوا بل کھاتی ہے بادل کو صبا سنکاتی ہے 
پانی سے زمیں نرماتی ہے سبزوں سے فضا لہراتی ہے 
رم جھم رم جھم تھم تھم تھم تھم بوندوں کی صدا جب آتی ہے 
ہر بوند سے دل کے تاروں پر اک چوٹ سی پڑتی جاتی ہے 
ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے 
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے 
بدلی کے دنوں میخوانوں میں صہبا کی روانی کیا کہنا 
راتوں کی شراب و شاہد سے پلکوں کی گرانی کیا کہنا 
ہر وقت سہانا کیا کہنا ہر رات سہانی کیا کہنا 
برسات کے بھیگے لمحوں میں شاداب جوانی کیا کہنا 
ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے 
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے 
رنگیں گلشن رنگی صحرا رنگی دنیا رنگی باتیں 
ناچے کھیلیں دوڑیں بھاگیں راتوں جاگیں نیندوں ماتیں 
کیا قہر ہے ظالم برساتیں کیا قہر ہے ظالم برساتیں 
بھیگی دنیا بھیگی سانسیں بھیگے ارماں بھیگی راتیں 
ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے 
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے 
ساون جو چڑھا پھر باغوں اور جھولوں کی باتیں ہوتی ہیں 
گلشن کی رنگیں سیروں میں کچھ رنگیں دھاتیں ہوتی ہیں 
جب عہد جوانی کی ٹھنڈی ٹھنڈی برساتیں ہوتی ہیں 
متوالی عمریں ہوتی ہیں متوالی راتیں ہوتی ہیں 
ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے 
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے 

نشور واحدی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *