Iztirab

Iztirab

ہپی

سنا ہے 
کہ اسرار کھلتے تھے اگلے زمانے میں انسان پہ جب زندگی کے 
تو وہ شہر اور بستیوں سے نکل کر چلا جاتا تھا پھر 
کہیں جنگلوں میں گپھاؤں میں کرتا خود اپنا تجسس 
لیے ایک انجانی منزل کی دل میں تمنا 
تعلق کی دیوار بوسیدہ ڈھا کر 
سر اپنا منڈا کر 
رماتا تھا دھونی 
اسے لوگ کہتے تھے سنیاسی سادھو 

مگر آج کچھ اور ہی کیفیت ہے 
حوادث سے افکار سے زندگی کے غموں سے بشر بھاگتا ہے 
انہیں اجنبی جانتا ہے 
تسلی سہاروں کی پہچانتا ہے 
نہ حال اور فردا نہ ماضی کا غم ہے 
نہ اپنی خبر ہے نہ اپنوں سے مطلب نہ غیروں کی پروا 
کبھی بیٹھ کر ہوٹلوں میں یہ پیتا ہے کافی 
دھوئیں میں کبھی کھو کے یہ ناچتا ہے 
کبھی گھومتا ہے یہ گلیوں میں آوارہ حیراں 
بڑھائے ہوئے بال رخسار و سر کے 
لباس برہنہ بدن پر سجائے 
بنائے ہوئے بھیس سنیاسیوں کا 
اب اس نے رکھا ہے ہپی نام اپنا 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *