Iztirab

Iztirab

آؤ ہم اس دنیا سے نکل چلیں

آؤ ہم اور تم محبت کے شور انگیز دریا کو تیر کر دوسرے ساحل پر جا اتریں۔ اس ریتیلے ساحل کو جس پر ہم کھڑے ہوئے ہیں، سفید دیمک نے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آؤ۔۔۔ آؤ ہم اس دریا کو تیر چلیں جس کی گہرائیوں میں چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے نہنگ شکار کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ فضول سوال مت کرو کہ ہمارے پاس ایک ٹوٹی ہوئی کشتی بھی نہیں، ہم اس طوفانی دریا کو کیسے پار کریں گے۔ آؤ ہم تیر کے نکل چلیں گے۔ نہیں۔ میں غلط کہہ رہا ہوں ہمارے پاس عزم و استقلال کی کشتی ہے، جس پر محبت اور وفا کے بادبان چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ دریا کیا ہے، ہم تو آگ کے بھی دریا کو پار کر سکتے ہیں۔ 
آؤ ہم ایک ایسے جزیرے میں چلیں گے جس کے ساحل مونگے کے ہیں، جہاں کھجور کے ٹھنڈے سایہ دار درخت لگے ہوئے ہیں، جن کے نیچے پہاڑوں سے اترنے والے قافلے آرام کرتے ہیں۔ یہ تھکے ماندے مسافر جو منزلیں طے کر کے چلے آ رہے ہیں، ان کے نیچے سو جاتے ہیں اور اپنی ناکام محبت کے خواب دیکھتے ہیں۔ 
آؤ ہم اس باغ سے باہر نکل چلیں جس کے پھولوں کی سنہری پنکھڑیوں میں ڈنک مارنے والی مکھیاں سو رہی ہیں، جن کی گہری کٹوریوں میں بجائے شہد کے زہر بھرا ہوا ہے۔ یہاں درختوں کی صندلی شاخوں سے زہریلے سانپ لپٹے ہوئے ہیں، جن کے بدن نقرئی اور پھن سنہری ہیں۔ یہاں شہتوت کے سایوں میں بہت سے ایسے بچھو آرام کر رہے ہیں جو کہربا کی طرح زرد ہیں اور جن کے ڈنک انگاروں کی طرح سرخ ہیں۔ یہ جہاں رہتے ہیں وہاں کی زمین جھلسی ہوئی ہے۔ سنبل کی زلفوں میں کتنے ہی سیہ بخت عاشقوں کی لاشیں لٹک رہی ہیں۔ نرگس کے سفید پھول سادہ لوح عشاق پر ڈورے ڈالتے ہیں اور جب وہ ان کے قریب جاتے ہیں تو ان پھولوں کےدل سے ایک چنگاری اٹھتی ہے، جو ان بدنصیبوں کو جلاکر خاک کر دیتی ہے۔ 
بید مجنوں کے نیچے ہزاروں حسرت نصیب عاشقوں کی قبریں ہیں جن پر بجائے پھولوں کے احمریں چوٹیوں والی ناگنیں لہراتی ہیں۔ لمبی لمبی سبز گھاس میں زرد آنکھیں والے شیر ببر سو رہے ہیں، ان کی زندگی کا مدار محض عاشقوں کے گرم خون پر ہے۔ یہ اپنے خونی پنجوں سے محبت کرنے والے سینوں کو پھاڑ ڈالتے ہیں اور دھڑکتے ہوئے دلوں کو چبا جاتے ہیں۔ آؤ ہم ان درندوں کی آنکھوں میں خاک ڈال کے یہاں سے نکل چلیں۔ آؤ ہم سوسن کی ان کلیوں کو کچلتے ہوئے یہاں سے نکل جائیں جو پیر پڑتے ہی شعلوں کی طرح بھڑک اٹھتی ہیں اور انگاروں کی طرح دہکنے لگتی ہیں۔ آؤ۔ آؤ ہم اس آتشیں طوفان سے باہر نکل چلیں۔ 
آؤ اس باغ سے ملا ہوا ایک اور باغ ہے۔ ہم اس میں چلیں۔ اس کی دیواریں حنا کی ہیں جو برسات میں پھولوں سے لد جاتی ہیں، جن پر اودے بھونرے اپنے شیریں نغمے گاتے ہیں۔ یہاں آموں کے سایوں میں مست مور اپنا سینہ نکالے ہوئے پھرا کرتے ہیں۔ جب بادل گھر کر آتے ہیں تو وہ اپنے رنگین سینوں کو اور ابھار دیتے ہیں اور ان کی دمیں زمین سے اچھلنے لگتی ہیں۔ یہاں گلاب کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر بلبلیں پھولوں سے راز و نیاز کی باتیں کرتی ہیں۔ کوئل کی رسیلی کوک اور پپیہے کی بدمست آواز پر گھاس میں دبک کر بیٹھ جانے والے چھوٹے چھوٹے کیڑے رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہاں کی نقرئی پنکھڑیوں والے پھول جن کے کنارے طلائی ہیں، کبھی نہیں کمھلاتے۔ ان پر بیٹھ کر وہ مکھیاں خواب دیکھتی ہیں جن کی دمیں شہد کی ہیں۔ 
یہاں کے ہرے بھرے کنجوں میں رومان کی دنیا آباد ہے۔ آؤ ہم بھی ان سایوں میں چل کر آرام کریں۔ جب یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے بھیگے ہوئے رخساروں کو خشک کر دیں گی، تو ہم اور تم مل کر محبت کے گیت گائیں گے اور اس باغ کو ایک دنیائے نغمہ بنا دیں گے۔ ہماری زمین موسیقی کی ہوگی، ہمارا آسمان موسیقی کا ہوگا اور ہم سراپا محبت۔ اس طرح ہم فضا پر غنودگی طاری کر دیں گے۔ وہ عالم گیر راگ جس کا زیر و بم ہماری ہستیوں پر حاوی ہے، ہمارا مطیع ہو کر رہ جائےگا۔ 
آؤ۔ آؤ ہم اپنے کو نغموں کے اس لافانی سیلاب میں ڈال دیں جو لہریں لے لے کر بڑھ رہا ہے۔ آؤ ہم اپنی ہستی کو ان موجوں کے سپرد کر دیں جو عناصر اربعہ کو جذب کر لیتی ہیں۔ پھر ہم کالے کالے بادلوں کی شکل میں امڈ امڈ کر آئیں گے اور جس جگہ برسیں گے وہاں ایسے پھول کھلیں گے جن کی خوشبوؤں کو ایک مرتبہ سونگھ لینے والا لازوال محبتوں کا مالک بن جائےگا۔ 
آؤ۔ ہم اس دنیا ہی سے نکل چلیں جہاں قسمت کی چیرہ دستیوں نے ہمیں پریشان کر دیا ہے۔ ہمارے پاس پیار کرنے کے لیے لب ہیں۔ ہمارے پاس محبت کرنے کے لیے دل ہیں۔ ہمارے پاس جذبات سے بھرے ہوئے سینے ہیں اور حرارت سے بھرے ہوئے پہلو۔ دیکھنے کے لیے آنکھیں ہیں۔ پھر بھی ہم اندھے ہیں۔ قید و بند حیات کی آہنی زنجیروں نے ہماری روحوں کو جکڑ دیا ہے۔ آؤ ہم اور تم اپنی نگاہوں سے ان زنجیروں کو توڑ دیں۔ بےجا فرائض کا وہ وزن جس نے ہمیں گراں بار بنا دیا ہے، ہمارے کندھوں کو توڑے ڈالتا ہے۔ آؤ ہم اور تم مل کر اسے پھینک دیں۔ تنہا تو صرف خدا ہی کام کر سکتا ہے۔ 
آؤ ہم بےہودگیوں کے اس جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں ، جس کے اندر دنیا والوں نے مذہب کی روح کو قید کر رکھا ہے۔ آؤ ہم اس بھاری پتھر کو ہٹا دیں جو انسانیت کے سینے کو کچلے ڈال رہا ہے۔ پھر ہم آزاد ہوں گے۔ جس طرح چاہیں گے پیار کریں گے۔ جیسے چاہیں گے محبت کریں گے۔ آؤ ہم اس دنیا سے نکل چلیں اور ایک ایسی جگہ چلیں جہاں نہ یہاں کےسے ہنگامے ہیں اور نہ شور و غل۔ وہاں بس سکون ہی سکون ہے۔ 
آؤ ہم ستاروں کی بستی میں چلیں جہاں ثوابت ہمیں حیرت سے دیکھیں گے، سیارے ہمارے گرد طواف کریں گے، سورج ہماری پیشانیوں سے طلوع ہوگا، چاند ہمارے لاتعداد بوسوں کی روشنیوں کو دنیا پر نچھاور کرےگا۔ جلتے ہوئے دلوں کو اس سے ٹھنڈک پہنچےگی اور دکھے ہوئے دل راحت پائیں گے۔ 
پھر ہم اس جادوانی راستے پر گامزن ہوں گے جسے انسانی نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں، جو بل کھاتا ہوا کہکشاں کے سینے پر سے گزر گیا ہے۔ وہاں ہم اس راستے پر خوش خوش چلیں گے۔ سرکش ستاروں کو جو ہمیں دیکھ دیکھ کر آج مسکراتے ہیں، اپنے پیروں سے روند ڈالیں گے۔ دم دار ستاروں کا روشن عصا ہمارے ہاتھ میں ہوگا جسے آسمانوں پر ٹیکتے ہوئے ہم اس چمک دار راستے پر جا رہے ہوں گے، جس نے افلاک نیلمیں کو گھیر رکھا ہے اور اس مقدس مقام کے قریب سے اپنی پیشانئی نیاز جھکا کر آگے نکل گیا ہے، جہاں بار گاہ جلال قدرت کے ستونوں پر قائم ہے۔ محبت کی دنیا اس کے بھی آگے ہے۔ 
آؤ۔ آؤ ہم ہستی کا زرکار نقاب اپنے چہروں سے الٹ دیں تاکہ ہمارے چہرے زیادہ تابناک اور درخشندہ ہو جائیں۔ روح ہستی کے بوجھ سے دبی جا رہی ہے۔ آؤ ہم اپنی روحوں کو آزاد کر لیں اور اس معطر فضا میں چل کر سانس لیں جہاں عشق ہی عشق ہے۔ پھر ہم لافانی ہوجائیں گے۔ جب شعلہ حیات بھڑک اٹھےگا، جب ہستی کی گرہیں کھل جائیں گی، جب موت کی آخری ٹھوکر خوابیدہ روح کو جگا دےگی تو یہ طلسم زندگی ٹوٹ جائےگا۔ پھر محبت کی فتح ہوگی اور ہم اور تم، دو بھونرے، ایک ہی پھول پر منڈلائیں گے۔ دو قمریاں ایک ہی سر پر نغمہ زنی کریں گی۔ جب ساز حیات کے تار نغمہ کی بلندی سے ٹوٹ جائیں گے، جب رگ دل خون کی زیادتی سے پھٹ جائےگی تو ہستی کا شیرازہ بکھر جائےگا۔ پھر عشق کی فتح ہوگی اور ہم اور تم نغمۂ جاوید کی آخری تان ہوں گے۔ 
آؤ ہم اس آلام اور مصائب کی زندگی کا خاتمہ ہی کیوں نہ کر دیں اور ایک نئی زندگی کی ابتدا کریں۔ ہماری محبت کا آفتاب پہلی بار آسمان پر چمکے گا اور تمام اجرام فلکی اس کے سجدے کے لیے جھک جائیں گے۔ تمہیں وہ پیمان یاد ہوگا جو ہم سے روزِ ازل لیا گیا تھا۔ پہاڑوں نے اس بار کے اٹھانے سے انکار کر دیا۔ آسمان اور زمین اس کےخیال ہی سے چیخ اٹھے، مگر ہم نے وعدہ کر لیا، دیوانے انسان نے اس بوجھ کو اٹھایا۔ آہ! ہم اس عہد کی صدائے بازگشت ہیں۔ آؤ ہم اپنے سینوں کو محبت سے بھر لیں اور اسی جگہ لوٹ چلیں جہاں سے ہم آئے ہیں۔ 

علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *