مجھے کیا اگر مجھ سے پہلے
یہ دھرتی مری پیاری دھرتی فقط اک ہیولیٰ تھی اور زینت طاق نسیاں تھی
اس کا تصور
محض دیت کے چند ذرے تھی یا راستے تھے
یہ وہ لوگ تھے جن کی ساری تگ و دو ہی دھرتی سے ترک تعلق پہ موقوف تھی
ہواؤں میں ان کے طلسمی محل تھے
خلا میں لٹکتی تھیں ان کی نگاہوں کی لاشیں
مجھے کیا اگر وہ
سبھی اپنے دل کے دماغوں کے آنکھوں کے زخموں کا مرہم ستاروں میں جا ڈھونڈتے تھے
کبھی چاند کی زرد کرنوں سے جلتے لبوں کی مگر تشنگی کو بجھاتے
انہیں خبط تھا یہ ہوائیں سکوں آشتی اور الفت کا چشمہ ہیں
ان کے رواں تند جھونکے ہماری پریشانیوں کا مداوا ہیں
سورج دماغوں میں کچے خیالوں کی فصلیں پکاتا ہے
دھرتی تو بس ہم میں احساس بیگانگی پیدا کرتی ہے
روحیں ہمیشہ ہی اک کرب کی آگ میں جلتی رہتی ہیں
دھرتی فقط ایک زنداں ہے
جس سے رہائی کی صورت فلک چاند ستاروں سے منسوب ہونے میں ہے
مجھے کیا ان کے جینے کا مقصد ہی
اپنی ہلاکت تھا خود کو بھلانا تھا
ساری تگ و دو سے مقصود بس خود کشی تھی
وہ بزدل تھے سب اپنے قاتل تھے اندھے تھے
ان کی نگاہیں زمین دیکھ سکتی نہیں تھیں
انہیں خود کا احساس تک بھی نہیں تھا
وہ سب کچھ تھے لیکن مجھے کیا
میں ان کے لئے اپنی آنکھوں کو دل کو عبث آنسوؤں میں گھلاؤں
میں کیوں رات دن ان کے غم میں جلوں
میں تو ان میں نہیں ہوں
وہ اندھے تھے قاتل تھے اپنے لئے تھے
مجھے کیا کہ وہ میں نہیں تھا
محمود شام