Iztirab

Iztirab

یُوں ہی رنجش ہو اُور گلا بھی یوں ہی

یُوں ہی رنجش ہو اُور گلا بھی یوں ہی 
ہو جے ہر بات پر خفا بھی یُوں ہی 
کچھ نہ ہم کو ہی بھا گیا یہ طور 
واقعی یہ کے ہے مزا بھی یوں ہی 
صید کنجشک سے نہ ہاتھ اٹھا 
آ کہ پھنس جائے ہے ہما بھی یوں ہی 
جوں اجاڑا تو گھر میرا اے عشق 
خانہ ویران ہو تیرا بھی یوں ہی 
کیوں نہ روؤں میں دیکھ خندۂ گل 
کے ہنسے تھا وہ بے وفا بھی یوں ہی 
اب تلک مری زیست نے کی وفا 
بس میں دیکھی تیری جفا بھی یوں ہی 
مس دل کو دیا کر اپنے گداز 
ہاتھ چڑھ جا ہے کیمیا بھی یوں ہی 
یہ کہاں اور وہ گل کدھر قائمؔ 
.اِک ہوا باندھے ہے صبا بھی یوں ہی 

قائم چاند پوری 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *