Iztirab

Iztirab

کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے

کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے 
ان کا بندہ ہوں جُو بندے ہیں محبت والے 
چاہیں گر چارہ جراحت کا محبت والے 
بیچیں الماس و نمک سنگ جراحت والے 
گئے جنت میں اگر سوز مُحبت والے 
تُو یہ جانو رہے دوزخ ہی میں جنت والے 
ساقیا ہوں جُو صبوحی کی نہ عادت والے 
صبح محشر کو بھی اٹھیں نہ تیرے متوالے 
دختر رز کو نہیں چھیڑتے ہیں متوالے 
حذر اس فاحشہ سے کرتے ہیں حرمت والے 
رہے جوں شیشۂ ساعت وہ مکدر دونوں 
کبھی مل بھی گئے دو دل جُو کدورت والے 
کس مرض کی ہیں دوا یہ لب جاں بخش تیرے 
جاں بہ لب ہیں تیرے آزار مُحبت والے 
حرص کہ پھیلتے ہیں پاؤں بہ قدر وسعت 
تنگ ہی رہتے ہیں دنیا میں فراغت والے 
ہائے رے حسرت دیدار میری ہائے کو بھی 
لکھتے ہیں ھائے دو چشمی سے کتابت والے 
نہیں جز شمع مجاور میری بالین مزار 
نہیں جز کثرت پروانہ زیارت والے 
نہ شکایت ہے کرم کی نہ ستم کی خواہش 
دیکھ تُو ہم بھی ہیں کیا صبر و قناعت والے 
کیا تماشا ہے کے مثل مہ نو اپنا فروغ 
جانتے اپنی حقارت کو ہیں شہرت والے 
دِل سے کچھ کہتا ہوں میں مُجھ سے ہے کچھ کہتا دل 
دونوں اِک حال میں ہیں رنج و مصیبت والے 
تو گر آ جائے تو اے درد محبت کی دوا 
میرے ہمدرد ہوں بے درد فضیحت والے 
چھوڑ دیتے ہیں قلم جوں قلم آتش باز 
میری شرح طپش دِل کی کتابت والے 
کبھی افسوس ہے آتا کبھی رونا آتا 
دل بیمار کہ ہیں دو ہی عیادت والے 
تُو میرے حال سے غافل ہے پر اے غفلت کیش 
ترے انداز تغافل نہیں غفلت والے 
ہم نے دیکھا ہے جُو اس بت میں نہیں کہہ سکتے 
کے مبادا کہیں سن پائیں شریعت والے 
ناز ہے گُل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ 
.اِس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *