Iztirab

Iztirab

ہوئے کیوں اِس پہ عاشق ہم ابھی سے

ہوئے کیوں اِس پہ عاشق ہم ابھی سے 
لگایا جی کو ناحق غم ابھی سے 
دلا ربط اس سے رکھنا کم ابھی سے 
جتا دیتے ہیں تُجھ کو ہم ابھی سے 
تیرے بیمار غم کہ ہیں جُو غم خوار 
برستا ان پہ ہے ماتم ابھی سے 
غضب آیا ہلیں گر اس کی مژگاں 
صف عشاق ہے برہم ابھی سے 
اگرچہ دیر ہے جانے میں ترے 
نہیں پر اپنے دم میں دم ابھی سے 
بھگو رہوے گا گریہ جیب و دامن 
رہے ہے آستیں پر نم ابھی سے 
تمہارا مُجھ کو پاس آبرو تھا 
وگرنہ اشک جاتے تھم ابھی سے 
لگے سیسہ پلانے مُجھ کو آنسو 
کے ہو بنیاد غم محکم ابھی سے 
کہا جانے کو کس نے مینہ کھلے پر 
کے چھایا دل پہ ابر غم ابھی سے 
نکلتے ہی دم اٹھواتے ہیں مُجھ کو 
ہوئے بے زار یوں ہمدم ابھی سے 
ابھی دِل پر جراحت سو نہ دو سو 
دھرا ہے دوستُو مرہم ابھی سے 
کیا ہے وعدۂ دیدار کس نے 
کے ہے مشتاق اِک عالم ابھی سے 
میرا جانا مجُھے غیروں نے اے ذوقؔ 
.کے پھرتے ہیں خُوش و خرم ابھی سے

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *