Iztirab

Iztirab

یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے

یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے 
زندگی مُوت کہ آنے کی خبر دیتی ہے 
زال دنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر 
مرد دیں دار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے 
بڑھتی جاتی ہے جُو مشق ستم اس ظالم کی 
کچھ مُحبت میری اصلاح مگر دیتی ہے 
فائدہ دے تیرے بیمار کو کیا خاک دوا 
اب تُو اکسیر بھی دیجے تُو ضرر دیتی ہے 
شمع گھبرا نہ شب غم سے کے کوئی دم میں 
تُجھ کو کافور سفیدی سحر دیتی ہے 
غنچہ ہنستا ہے تیرے آگے جُو گستاخی سے 
چٹخنا منہ پہ وہیں باد سحر دیتی ہے 
شمع بھی کم نہیں کچھ عشق میں پروانے سے 
جان دیتا ہے اگر وُہ تُو یہ سر دیتی ہے 
دم بہ دم زخم پہ اِک زخم ہے دم لینے کی 
مُجھ کو فرصت نہیں وُہ تیغ نظر دیتی ہے 
کہتے سنتے نہیں کچھ ہم تُو شب ہجر میں پر 
نالۂ دِل کا جواب آہ جگر دیتی ہے 
تیرہ بختی میری کرتی ہے پریشاں مُجھ کو 
تہمت اِس زلف سیہ فام پہ دھر دیتی ہے 
نخل مژگاں سے ہے کیا جانیے کیا چشم ثمر 
چشم پانی کی جگہ خُون جگر دیتی ہے 
دیتی شربت ہے کسے زہر بھری آنکھ تیری 
عین احسان ہے وُہ زہر بھی گر دیتی ہے 
کوئی غماز نہیں مری طرف سے اے ذوقؔ 
.کان اِس کہ میری فریاد ہی بھر دیتی ہے 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *