Iztirab

Iztirab

نہ کرتا ضبط میں نالہ تُو پھر ایسا دھواں ہوتا

نہ کرتا ضبط میں نالہ تُو پھر ایسا دھواں ہوتا 
کے نیچے آسماں کہ اور پیدا آسماں ہوتا 
کہے ہے مرغ دِل اے کاش میں زاغ کماں ہوتا 
کے تا شاخ کماں پر اس کی میرا آشیاں ہوتا 
ابھی کیا سرد قاتِل یہ شہید تفتہ جاں ہوتا 
کوئی دم شمع مردہ میں بھی ہے باقی دھواں ہوتا 
نہ ہوتی دِل میں کاوش گر کسی کی نوک مژگاں کی 
تُو کیوں حق میں میرے ہر موئے تن مثل سناں ہوتا 
عزا داری میں ہے کس کی یہ چرخ ماتمی جامہ 
کے حبیب چاک کی صورت ہے خط کہکشاں ہوتا 
بگولا گر نہ ہوتا وادئ وحشت میں اے مجنُوں 
تُو گنبد ہم سے سرگشتوں کی تربت پر کہاں ہوتا 
جُو روتا کھول کر دِل تنگ نائے دہر میں عاشق 
تُو جوئے کہکشاں میں بھی فلک پر خوں رواں ہوتا 
نہ رکھتا گر نہ رکھتا منہ پہ یہ دانا مریض غم 
مگر ترا میسر بوسۂ خال دہاں ہوتا 
تیرے خونیں جگر کی خاک پر ہوتا اگر سبزہ 
تُو مژگاں کی طرح اس سے بھی پیہم خوں رواں ہوتا 
رکاوٹ دِل کی اس کافر کہ وقت ذبح ظاہر ہے 
کہ خنجر مری گردن پر ہے رک رک کر رواں ہوتا 
نہ کرتا ضبط میں گریہ تُو اے ذوقؔ اِک گھڑی بھر میں 
کٹورے کی طرح گھڑیال کہ غرق آسماں ہوتا 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *