Iztirab

Iztirab

کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر

کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر 
چل بسا وُہ آج سب ہستی کا ساماں چھوڑ کر 
طفل اشک ایسا گرا دامان مژگاں چھوڑ کر 
پھر نہ اٹھا کوچۂ چاک گریباں چھوڑ کر 
کیونکہ نکلے ترا اِس کا دِل میں پیکاں چھوڑ کر 
جائے بیضے کو کہاں یہ مرغ پراں چھوڑ کر 
جس نے ہو لذت اٹھائی زخم تیغ عشق کی 
کب وُہ مرہم دان کو ڈھونڈے نمک داں چھوڑ کر 
صید دِل کو کیونکہ چھوڑے جب کے دکھلا دے نہ تو 
مچھلیاں دست حنائی میں میری جاں چھوڑ کر 
سرد مہری سے کسی کی آگے ہی جی سرد ہے 
یاں سے ہٹ جا دھوپ اے ابر خراماں چھوڑ کر 
دیکھیے کیا ہو کے ہے اب جان کہ پیچھے پڑی 
دِل کو اے کافر تیری زلف پریشاں چھوڑ کر 
اے دِل اِس کہ تیر کہ ہم راہ سینے سے نکل 
ورنہ پچھتائے گا تو یہ ساتھ ناداں چھوڑ کر 
کیوں نہ رم کر جائیں آہو ایسے وحشی سے تیرے 
شیر بھاگیں جس کہ نالوں سے نیستاں چھوڑ کر 
سرخی پاں دیکھ لے زاہد جو دنداں پر تیرے 
اٹھ کھڑا ہو ہاتھ سے تسبیح مرجاں چھوڑ کر 
پیش خیمہ لے کے نکلا گرد باد دور رو 
ہے جُو سرگرم سفر تن کو میری جاں چھوڑ کر 
گر خدا دیوے قناعت ماہ دوہفتہ کی طرح 
دوڑے ساری کو کبھی آدھی نہ انساں چھوڑ کر 
ساغر دِل بیچتا آیا ہوں کھو مت ہاتھ سے 
چوکتا ہے کیوں یہ جنس دست گرداں چھوڑ کر 
کام یہ ترا ہی تھا رحمت ہو اے ابر کرم 
ورنہ جائے داغ عصیاں مرا داماں چھوڑ کر 
پڑھ غزَل اے ذوقؔ کوئی گرم سی اب تُو نہ جا 
.جانب مضمون طرز تفتہ جاناں چھوڑ کر 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *