بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں ہم اپنے ہاتھوں کا مژگاں سے کام لیتے ہیں ہم ان کی زلف سے سودا جو وام لیتے ہیں تُو اصل و سود وُہ سب دام ، دام لیتے ہیں شب وصال کہ روز فراق میں کیا کیا نصیب مُجھ سے میرے انتقام لیتے ہیں قمر ہی داغ غلامی فقط نہیں رکھتا وُہ مول ایسے ہزاروں غلام لیتے ہیں ہم ان کہ زور کہ قائل ہیں ہیں وہی شہ زور جُو عشق میں دِل مضطر کو تھام لیتے ہیں قتیل ناز بتاتے نہیں تُجھے قاتِل جب ان سے پُوچھو اجل ہی کا نام لیتے ہیں تیرے اسیر جو صیاد کرتے ہیں فریاد تُو پھر وُہ دم ہی نہیں زیر دام لیتے ہیں جھکائے ہے سر تسلیم ماہ نو پر وہ غرور حُسن سے کس کا سلام لیتے ہیں تیرے خرام کہ پیرو ہیں جتنے فتنے ہیں قدم سب آن کہ وقت خرام لیتے ہیں ہمارے ہاتھ سے اے ذوقؔ وقت مے نوشی .ہزار ناز سے وُہ ایک جام لیتے ہیں
شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ